بیوی اور والدین کے حقوق

سوال: میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے، وہاں بحیثیت بیوی کے بعض امور میں اس کو تحقیر بھی کر دیا ہے۔ مثلاً اس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کر دیا ہے۔ حالانکہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ و اختیار میں رکھا گیا ہے وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ و اختیار میں کر دیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کر سکتا ہے۔ ان امور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہوں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں۔

جواب: آپ نے دو وجوہ کی بناء پر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ عورت کی پوزیشن خانگی زندگی میں فروتر رکھی گئی ہے ایک یہ کہ مرد کو چار چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے دوسرے یہ کہ شوہر کو والدین کا تابع رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات وہ اپنی بیوی کے جذبات اور اس کی خواہشات کو والدین کی رضا پر قربان کر دیتا ہے۔ ان وجوہ میں سے پہلی وجہ پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات بہت آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ عورت کے لیے تین سوکنوں کا برداشت کرنا جتنا تکلیف دہ ہے اس سے بدرجہا زیادہ تکلیف دہ چیز اس کے لیے یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے شوہر کی کئی کئی محبوبائیں اور داشتائیں ہوں۔ اسلام نے اسی کو روکنے کے لیے مرد کو ایک سے زائد نکاح کرنے کی اجازت دی ہے ایک مرد ناجائز تعلقات میں جتنا بے باک ہو سکتا ہے، شادیاں رچانے میں اتنا نہیں ہوسکتا، کیونکہ شادی کی صورت میں مرد کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا ہے اور طرح طرح کی پیچیدگیوں سے اسے سابقہ پیش آتا ہے، یہ دراصل عورتوں ہی کے فائدے کے لیے ایک روک تھام ہے نہ کہ مردوں کے لیے بے جا رعایت۔ دوسرے طریقے کا تجربہ آجکل مغرب کی سوسائٹی کر رہی ہے وہاں ایک طرف تو جائز سوکنوں کا سدباب کر دیا گیا ہے لیکن دوسری طرف ناجائز سوکنوں سے عورت کو بچانے کا کوئی انتظام اس کے سوا نہیں کیا گیا کہ وہ انہیں برداشت نہ کر سکے تو شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے لیے عدالت میں نالش کر دے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس سے عورت کی مصیبت کچھ کم ہو گئی ہے؟ چھڑی چھانٹ عورت تو شاید سوکن سے بچنے کے لیے طلاق کو آسان سمجھ لے مگر کیا بچوں والی عورت کے لیے بھی یہ نسخہ آسان ہے؟


دوسری جس شکایت کا اظہار آپ نے کیا ہے اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ غالباً آپ ابھی تک صاحب اولاد نہیں ہیں، یا اگر ہیں تو آپ کے کسی لڑکے کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔ آپ اس خاص معاملے کو ابھی تک صرف بہو کے نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ جب آپ اپنے گھر میں خود بہو لے آئیں گی اور اس معاملے پر ماں کی حیثیت سے غور کریں گی تو یہ مسئلہ اچھی طرح آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ بیوی کے حقوق کتنے ہونے چاہئیں اور ماں باپ کے کتنے، بلکہ اس وقت شاید آپ خود انہی حقوق کی طالب ہوں گی جن پر آج آپ کا اعتراض ہے۔