News Detail Banner

سیلاب زدہ علاقوں میں سرکاری امداد کی شفاف تقسیم کا بااعتماد نظام تشکیل دیا جائے۔ سیلاب سے ساڑھے تین کروڑ افراد متاتر ہوئے ہیں

1سال پہلے

لاہور02 ستمبر2022ء

قائم مقام امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں سرکاری امداد کی شفاف تقسیم کا بااعتماد نظام تشکیل دیا جائے۔ سیلاب سے ساڑھے تین کروڑ افراد متاتر ہوئے ہیں جب کہ ساڑھے اٹھارہ کروڑ اللہ تعالیٰ کے کرم کی وجہ سے محفوظ ہیں، اگر ملک میں مواخات مدینہ کی طرز پر نظام تشکیل پا جائے تو ہمیں کسی بھی حادثہ کی صور ت میں غیر ملکی امداد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملک کا بیشتر علاقہ فالٹ لائن پر موجود ہے، جہاں کبھی بھی بڑے حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریلیف کے کاموں کو منظم کرنے کے لیے تمام قومی اداروں، وفاقی، صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل موثر نیٹ ورک اور قومی ایکشن پلان تشکیل دیا جائے تاکہ خدانخواستہ آئندہ کسی حادثہ کی صورت میں انتظامی اخراجات سے بچا جا سکے اور متاثرین کی بروقت امداد بھی ممکن ہو سکے۔ جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن تاحال چھ ارب روپے کے امدادی فنڈز سے سیلابی علاقوں میں ریلیف کام سرانجام دے رہی ہیں، ہمارے ہزاروں رضاکار متاثرہ علاقوں میں خوراک، پانی، ادویات اور خیموں کی بروقت فراہمی کو ممکن بنا رہے ہیں۔ مخیر حضرات اور بیرون ملک پاکستانیوں کی متاثرین کی مدد کے لیے تاحال کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بڑھ چڑھ کر اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرے۔ سیلابی علاقوں میں خصوصی طور پر حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے میڈیکل کیمپ تشکیل دیے جائیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں، قومی قیادت کو اپیل کرتے ہیں کہ وہ کم از کم اس مشکل وقت میں اپنی ذمہ داری نبھائے اور لوگوں کی مدد کرے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور ناظم شعبہ مالیات نذیر احمد جنجوعہ کے ہمراہ منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ موجودہ سیلاب میں اگرچہ انسانی جانوں کا ضیاع کم ہوا ہے مگر مال مویشی، فصلوں اور انفراسٹرکچر کے نقصانات 2005ء کے زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب سے کہیں زیادہ ہیں۔ سیلاب سے تعلیمی ادارے، مساجد اور مدارس بھی بڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں۔ مشکل حالات میں عالمی برادری کا تعاون قابل تحسین اور مثبت پہلو ہے، مگر بدقسمتی سے ابھی سے ہی متاثرہ علاقوں میں بدانتظامی، سراکاری امداد کی تقسیم میں کرپشن اور سیاسی عمل دخل کی خبریں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کرپشن، بدانتظامی اور نااہلی کے سونامی سے تباہی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی زیادہ ہے اور ان دونوں مسائل کی وجہ سے ملک کا ہر شہری پریشان ہے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک مگر حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ان امور کی بار بار نشاندہی کی ہے اور موجودہ حالات کے پیش نظر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اختلافات بھلا کر قوم کی خدمت کی اپیل بھی کی ہے، مگر حکمران تاحال غیر سنجیدہ ہیں جنھوں نے ہمیشہ کی طرح دکھ کی گھڑی میں عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فریدپراچہ نے جہاں فلڈ انکوائری کمیشن 2010ء رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہونے پر سوال اٹھایا وہیں انھوں نے موجودہ بدانتظامی کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے بھی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اداروں سے پوچھا جائے کہ پیشگی اطلاعات کے باوجود لوگوں کو ریسکیو کیوں نہیں کیا گیا، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اداروں کے فنڈز کا بھی حساب لیا جائے۔ مجوزہ جوڈیشل کمیشن اس بات کا بھی تعین کرے کہ پانی کی گزرگاہوں پر کن لوگوں کے قبضے ہیں اور عمارات کی تعمیر میں بلڈنگ کوڈز پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔