News Detail Banner

ہمارے ہاں اخلاقیات کو بلند کرنے کی بجائے معیارات کو کم کرنے کی ریت اپنائی جا رہی ہے۔ سراج الحق

1سال پہلے

لاہور06 اکتوبر2022ء

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ 62ون ایف ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ مہذب دنیا میں عوامی نمائندگان کے لیے بنیادی معیارات میں ایمان دار اور راست گو ہونا ہے، ہمارے ہاں اخلاقیات کو بلند کرنے کی بجائے معیارات کو کم کرنے کی ریت اپنائی جا رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کی سب سے ذمہ دار شخصیت کے طے شدہ قانون پر ریمارکس نے معاشرے کی اخلاقی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قرآن کا حکم ہے کہ مومنو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کا ساتھ دو۔ خود حضورؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو صدیق اور ابوعبیدہ ابن الجراحؓ کو امین الامت کا خطاب دیا۔ قوم حیران ہے کہ ہماری عدالتیں 180ڈگری کا یوٹرن لینے پر کیوں مجبور ہو جاتی ہیں اور متعدد کیسز میں حکومتیں بدلنے سے عدالتی فیصلے بھی بدل جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی طرح کے کیسز میں عدالتوں کے فیصلے مختلف ہیں۔ 

منصورہ سے جاری بیان میں امیر جماعت نے کہا کہ حضور پاکؐ انسانیت کی معراج ہیں اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ ان کے اسوہئ حسنہ کی پیروی کرے۔ فی الوقت 62ون ایف کے مطابق ایسے لوگ ہماری پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے جو صادق اور امین نہ ہوں۔ ہمارا یقین ہے کہ آئین اور قانون میں کوئی خامی نہیں،ہم چاہتے ہیں کہ ججز بغیر کسی دباؤ کے فیصلے کریں، قوم رہنمائی کے لیے عدالتوں کی جانب دیکھتی ہے۔ آئین و قانون کی بالادستی سے ہی ملک ترقی کرے گا۔ 

صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ریاست کے سب سے اہم عہدے پر فائز شخصیت کی طرف سے اعتراف کہ ملک میں دوکروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں حکمران سیاسی جماعتوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ صدر کی جانب سے ملک میں سیاسی افراتفری، کرپشن اور احتساب کے نعروں کو کمزور کیے جانے کی باتیں بھی پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی نااہلی کا ثبوت ہیں۔ صدر مملکت کو قوم کو بتانا چاہیے تھا کہ حکمران سیاسی جماعتیں ملک کے مسائل کی ذمہ دار ہیں۔ حکمران اشرافیہ نے سات دہائیوں میں قوم کے ساتھ کھلواڑ کیا، کسی نے خزانہ لوٹا تو کسی نے توشہ خانہ۔ 

سراج الحق نے کہا کہ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی نے پوری قوم کا معاشی استحصال کیا اور اب ایک سازش کے تحت ملک کی معاشرتی اقدار پر سیکولر لابیز کی جانب سے حملوں کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔ ملک میں قانون سازی غیرملکی ایجنڈوں کے تحت ہوتی ہے اور تینوں بڑی جماعتیں استعمار کی وفاداری کرتی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف قوانین کے ذریعے ملک کی معیشت کی مکمل باگ ڈور آئی ایم ایف کے حوالے کی گئی۔ ہمارے معاشی فیصلے امریکا میں آئی ایم ایف کے بند کمروں میں ہوتے ہیں جس سے قوم کو لاعلم رکھا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشی نظام کو تباہ کرنے کے بعد ٹرانس جینڈر ایکٹ اور گھریلو تشدد قانون کے ذریعے ہمارے معاشرے کی اسلامی اقدار پر حملے کیے گئے اب آئین کی شق 62ون ایف میں تبدیلی کے لیے راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ دین بیزار قوانین قوم کو قبول نہیں۔ آئین پاکستان ملک کی یکجہتی اور بقا کی ضمانت، اس سے چھیڑ چھاڑ قوم کے اجتماعی شعور کے خلاف نہیں ہونی چاہیے۔

امیر جماعت نے پشاور میں اساتذہ پر پولیس تشد د اور لاٹھی چارج کی شدید مذمت کی اور حکومت خیبرپختونخوا کو خبردار کیا کہ قوم کے معماروں کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز قبول نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اساتذہ کو عزت و تکریم دینے اور ان کے مطالبات پورے کرنے کی بجائے ریاستی مشینری انھیں سرعام چوکوں چوراہوں پر لاٹھیوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔