سید منور حسنؒ

سید منور حسنؒ

خاندانی و تعلیمی پس منظر

سید منور حسن 1944ء میں دہلی کے ایک ممتاز سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید اخلاق حسن تھا اور آپ کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت دہلی سے کراچی ہجرت کی۔ سید منور حسن نے 1963ء اور 1966ء میں کراچی یونیورسٹی سے عمرانیات اور اسلامیات میں ایم اے کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی منور حسن اپنی برجستگی اور شستہ تقریر میں معروف ہو گئے۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ علاوہ ازیں بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے۔

اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت

صدر ایوب خان کے مارشل لاء دور میں سید منور حسن بائیں بازو کی مقبول اور متحرک طلبہ تنظیم ” نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن“ میں شامل ہوئے اور 1959ء میں اس تنظیم کے صدر بن گئے۔ زندگی میں حقیقی تبدیلی اس وقت برپا ہوئی جب آپ نے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے کارکنان کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھا اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں کا مطالعہ کیا۔ نتیجتاً آپ 1960ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے اور جلد ہی جامعہ کراچی یونٹ کے صدر اور مرکزی شوریٰ کے رکن بنا دیے گئے۔ بعد ازاں 1964ء میں آپ اس کے مرکزی صدر (ناظم اعلیٰ) بنے اور مسلسل تین ادوار کے لیے اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ 

جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے سید منورحسن نے مارشل لاء کے جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہیں جیل میں بھی بھیجا گیا۔ انہوں نے اسلامی نظام تعلیم، تعلیمی مسائل اور خواتین یونی ورسٹی کے قیام جیسے اہم موضوعات پر بھرپور جدوجہد کی اور اس سلسلے میں عوامی رائے عامہ کو متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1963ء میں سید منور حسن نے ادارہ معارف اسلامی کراچی کی ذمہ داری سنبھالی جہاں تھوڑے ہی عرصہ میں ان کی زیر نگرانی علمی ادبی اور دینی موضوعات پر 70 سے زائد کتابیں شائع ہوئیں۔ اسی دوران سید منور حسن دو انگلش جرائد کے ایڈیٹر بھی رہے۔

جماعت اسلامی میں شمولیت

 سید منورحسن 1967ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیر اور پھر امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شورٰی اور مجلس عاملہ کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ کئی فورمز پر جماعت اسلامی کی نمائندگی کی، جیسے یونائیٹد ڈیموکریٹک فورم اور پاکستان نیشنل الائنس(پاکستان قومی اتحاد) وغیرہ۔ تحریک نظام مصطفیٰ کے دوران آپ کو ایک مرتبہ پھر جیل بھیج دیا گیا۔ 1977ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992ء میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993ء میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان

مارچ 2009ء میں سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے۔ ان سے قبل جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری نبھائی۔ آپ جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے اور آپ کی مدت امارت  2009ء  تا  2014ء رہی۔ تنظیمی ذمہ داریوں کے دوران آپ نے متعدد بین الاقوامی  کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کی۔ نیز یورپ، ریاست ہائے متحدہ امریکا، کینیڈا، مشرقِ وسطٰی، جنوب مشرق اور جنوب مشرقی ایشیاء کے کئی ممالک کے دورے کیے۔

گو امریکا گو مہم

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان میں جو قتل و غارت گری و دہشت گردی کا بازار گرم رہا اور جس طرح اس جنگ کے اثرات پاکستانی معیشت و معاشرت نے بھگتے، اس کے تناظر میں سید منور حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل امریکا کا اس خطے سے چلے جانا ہے، جب تک امریکا اس خطے میں رہے گا دہشت گردی میں اضافہ ہوتا رہے گا، اس لیے ضروی ہے کہ تمام سطحی کاموں کو چھوڑ کر پوری قوم گو امریکا گو مہم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے۔

وفات و چند اہم یادیں

علالت کی بنا پر چند ہفتے کراچی کے نجی ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد جمعہ کے روز 26 جون 2020ء کو سید منورحسن  اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی اولاد میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ سید منور حسن کی اہلیہ عائشہ منور بھی جماعت اسلامی پاکستان کے حلقہ خواتین کی مرکزی” سیکرٹری جنرل“ رہیں۔وہ گزشتہ اسمبلی میں ممبر قومی اسمبلی بھی رہ چکی ہیں۔ 

سید منور حسن کی بیٹی کی شادی پر جب مہمان مہنگے تحائف دے کر گئے تو انھوں نے اپنی بیٹی کو کہا کہ یہ تحفے آپ کو نہیں، جماعت کے امیر کو ملے ہیں اورتمام مالیت کی اشیاء جماعت کے بیت المال میں جمع کروا دیں۔ اسی طرح اپنے ایک تنظیمی دورے کے بعد جب منور حسن برطانیہ سے پاکستان تشریف لے آئے تو وہاں برطانیہ میں آپ کو گھڑیوں، پرفیومز، کپڑوں سمیت کافی بیش قیمت تحائف آپ سے عقیدت رکھنے والوں کی طرف سے پیش کیے گئے تھے، لیکن وطن واپسی پر  آپ نے وہ سب تحائف جماعت کے بیت المال انچارج کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب مجھے  ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے ملے  ہیں اس لئے یہ سب جماعت کے ہیں۔ "صبح منور" کے نام سے سید منور حسن کی سوانح حیات ڈاکٹر حافظ ساجد اقبال شیخ نے لکھی ہے۔