میاں طفیل محمدؒ

میاں طفیل محمدؒ

ابتدائی حالات زندگی و خاندان

میاں طفیل محمد نومبر 1913ء میں مشرقی پنجاب کی ریاست کپورتھلہ کے ایک گاؤں صفدر پور ارائیاں کے ایک کاشت کار مذہبی رجحان رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے، جس کے افراد اپنی شرافت و دیانت، تعاونِ باہمی، اتفاق اور محبت کی وجہ سے پورے علاقے میں معزز و محترم مقام کے حامل تھے۔ ان کے خاندان کے بزرگان گاؤں میں نمبردار اور ذیلدار تھے، میاں صاحب کے تایا چودہری رحمت علی کپور تھلہ اسمبلی کے ممبر بھی چنے گئے تھے۔ آپ کے والد اسکول میں معلم ہونے کے ساتھ کاشت کاری بھی کیا کرتے تھے۔ میاں طفیل محمد اپنے بہن بھائیوں میں بڑے تھے اور اپنی خود نوشت سوانح ”مشاہدات“میں بیان فرماتے ہیں کہ بچپن کے زمانے میں وہ گلی کوچوں میں کھیلنے اور شور و ہنگامہ کرنے والے بچوں سے بہت کم ملا کرتے تھے۔ اس کے برعکس نصابی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے بعد بیش تر وقت بزرگوں اور بااثر لوگوں کی مجالس میں گزارا کرتے تھے، جس سے ان کی طبیعت میں سنجیدگی، تفکر و تدبر پیدا ہوا۔

تعلیمی پسِ منظر

میاں طفیل محمد نے پرائمری تک تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے، مڈل قصبہ نڈالہ کے اسکول سے کیا۔ میٹرک کا امتحان کپور تھلہ کے رندھیر ہائی اسکول اور ایف ایس سی(پری انجینئرنگ) رندھیر انٹر کالج، کپور تھلہ امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ لاہور کے گورنمنٹ کالج سے ریاضی اور فزکس کے ساتھ بی ایس سی آنرز کیا۔ 1937ء میں پنجاب یونی ورسٹی لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان محمد منیر آپ کے اساتذہ میں سے ہیں۔ ایل ایل بی کرنے کے بعد آپ نے جالندھر میں شیخ محمد شریف(بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج) کے ہمراہ وکالت شروع کی۔ ایک سال تک ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد آپ نے کپورتھلہ منتقل ہو کر وہاں اپنی آزاد وکالت کا آغاز کر دیا۔ آپ ریاست کپورتھلہ کے پہلے مسلمان(ایل ایل بی) وکیل تھے۔

جماعت میں شمولیت

سید ابو الاعلیٰ مودودی کے جاری کردہ رسالے ترجمان القرآن کے مستقل قاری تھے۔ جب جماعت اسلامی کا تاسیسی اجتماع مقرر ہوا تو آپ نے اجتماع میں شرکت کی اور اپنی خدمات جماعت کے لیے وقف کر دیں۔ جماعتی ضروریات کے پیش نظر 21 جنوری 1942ء کو آپ نے وکالت ترک کر کے تجارت کو ذریعہ معاش بنایا۔ بقول میاں صاحب کے یہ عرصہ معاشی سختی مگر روحانی سکون سے گزرا۔ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی لاہور ملک نصر اللّہ خان کی تجویز پر آپ کو مرکزی قیّم (جنرل سیکرٹری) مقرر کر دیا گیا اور آپ نے17 اپریل 1944ء کو دارالاسلام پہنچ کر جماعت کے کام کا چارج سنبھال لیا۔ قیم جماعت بننے کے بعد آپ نے تنظیمی امور کی طرف خاص توجہ دی، ارکان جماعت کو فعال کیا، ارکان و کارکنان سے رابطے اور دعوت و تنظیم کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کے لیے ہندوستان بھر میں دورے کیے۔ اس دوران آپ مذہبی و سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے ان تک جماعت کی دعوت پہنچاتے۔

قید و بند کی صعوبتیں

جماعت اسلامی میں نمایاں مقام رکھنے کے سبب متعدد بار پابند سلاسل ہوئے مگر پہلی گرفتاری اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک میں بھرپور حصہ لینے کے باعث 4 اکتوبر 1948ء کو ہوئی جب آپ کو گرفتار کر کے قصور جیل منتقل کر دیا گیا اور 14 اکتوبر کو آپ کو قصور سے ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ اپریل 1950ء میں نظر بندی کی مدت میں توسیع ہوئی لیکن اس دوران

لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ میں قرار دیا کہ "پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی شخص کو اٹھارہ ماہ سے زیادہ قید نہیں رکھا جا سکتا"۔ چنانچہ 28 مئی کو آپ کو مولانا مودودی کے ہمراہ ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا۔ جیل میں قید کے دوران آپ نے سید مودودی سے سورہ یوسف سے سورہ الناس تک قرآن مجید سبقاً پڑھا، حدیث کی مشہور کتاب مؤطا امام مالک مع متن سبقاً مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے پڑھی اور انہی سے اس دوران عربی زبان سیکھی۔

جماعت میں خدمات

میاں صاحب نے 1965ء تک قیم جماعت کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جنوری 1966ء میں نائب امیر جماعت کی ذمہ داری پر فائز ہوئے۔ اس دوران آپ جماعت اسلامی مغربی پاکستان کے امیر بھی رہے، جب کہ متعد مرتبہ آپ نے سید مودودی کی جگہ قائم مقام امیر کے فرائض انجام دیے۔ 1965ء میں جوائنٹ اپوزیشن (سی او پی) کا قیام عمل میں آیا تو میاں صاحب اس کے مرکزی رہنماؤں میں سے تھے۔ عوام میں جمہوری شعور پیدا کرنے اور ملک میں جمہوریت کے حق میں ایک مضبوط تحریک چلانے کے لیے آپ نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ مشرقی و مغربی پاکستان کا دورہ کیا، اس تحریک نے ملک میں پہلی مرتبہ ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کو چیلنج کیا۔ بعد ازاں میاں صاحب نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) اور ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی(ڈیک) میں جماعت کی طرف سے نہایت فعال کردار ادا کیا۔ انھی تحریکوں کا نتیجہ تھا کہ 1969ء میں ایوبی آمریت ختم ہوئی اور 1970ء میں ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے۔ جولائی اگست1971ء میں جب مغربی پاکستان سے کوئی لیڈر مشرقی پاکستان جانے کے لیے تیار نہیں تھا، میاں صاحب نے مشرقی پاکستان کا تفصیلی دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کو اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کا پیغام دیا۔

نومبر 1972ء میں آپ نے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر کا حلف اٹھایا۔ میاں طفیل محمد صاحب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دست راست اور ان کے صحیح معنوں میں جانشین تھے ۔ 1972ءمیں میاں طفیل محمد کے امیر جماعت منتخب ہونے پر مولانا مودودیؒ نے فرمایا تھا کہ ”مجھے یہی توقع تھی کہ میاں طفیل محمد ہی امیر منتخب ہوں گے اور جماعت کے ارکان نے بالکل درست انتخابات کیا ہے ، وہ میرے معتمد علیہ ساتھی رہے ہیں۔"

امیر جماعت بننے کے بعد آپ نے تربیت گاہوں کے ذریعے جماعت کے بنیادی لٹریچر سے تجدید کی مہم شروع کی۔ کارکنان کی تربیت اور قیادت سے براہ راست رابطے کے لیے مرکز میں ماہانہ دس روزہ تربیت گاہ کا اہتمام کیا۔ اسی طرح پورے ملک میں قرآنی حلقوں کا نیا سلسلہ شروع کیا اور کم از کم تین ہزار مقامات پر یہ حلقہ ہائے درس قائم ہوئے۔

مارچ 1973ء میں اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل متحدہ جمہوری محاذ(یو ڈی ایف) کے قیام میں میاں صاحب نے بھرپور کردار ادا کیا۔ محاذ کی مسلسل جدوجہد سے قوم کو 1973ء کا متفقہ آئین نصیب ہوا۔ جنوری1977ء میں پاکستان قومی اتحاد(پی این اے) کے قیام میں بھی آپ نے کلیدی رول ادا کیا۔ آپ کی امارت کے دوران جب روس نے دسمبر 1979ء میں افغانستان پر قبضہ کیا تو آپ نے اس کو دفاع پاکستان کی جنگ سمجھتے ہوئے افغانوں کا ساتھ دیا۔ میاں طفیل محمد ؒ نے تحریک نظام مصطفی ﷺ ،تحریک ختم نبوت، پاکستان قومی اتحاد سمیت بڑی قومی تحریکوں کی قیادت کی۔

جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت

میاں صاحب نے اکتوبر 1987ء تک امیر جماعت کے فرائض انجام دیے۔ امارت سے فارغ ہونے کے بعد ادارہ معارف اسلامی، منصورہ کے چئیر مین اور عالمی مساجد کونسل کے رکن کی ذمہ داریاں ادا کیں۔

وفات

24 جون 2009ء کو جمعرات کی شب لاہور میں، میاں طفیل محمد پچانوے برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ میاں طفیل محمد کی پندرہ روز قبل دماغ کی شریان پھٹ گئی تھی جس کے بعد انہیں شیخ زید ہسپتال لاہور میں داخل کرا دیا گیا تھا جہاں وہ جمعرات کی شب وفات پا گئے۔ میاں طفیل محمد ؒجماعت اسلامی کے اکابرین میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان جیسی شخصیت اور مزاج کے حامل لوگ کم کم ہی ملتے ہیں۔ درویش صفت، فقیر منش، سادگی اور رواداری ان پر ختم تھی، للہٰیت کا پیکر، بے غرضی اور بے نفسی کا سراپا ایسی صفات ہیں جو میاں طفیل محمد ؒ پر صادق آتی ہیں۔

تصانیف

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات(شریک مصنف)

دعوت اسلامی اور مسلمانوں کے فرائض

اردو ترجمہ کشف المحجوب از سید علی ہجویری

متعدد مقالات اور پمفلٹ

آپ نے 1959ء میں اسلامک پبلی کیشنز کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا مقصد اسلامی و تعمیری لٹریچر کی تجارتی بنیادوں پر اشاعت کا اہتمام کرنا تھا۔