News Detail Banner

حجاب دنیا کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ عورت کا تاج زریں ہے،سراج الحق

2سال پہلے


لاہور04 ستمبر2021ء

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حجاب دنیا کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ عورت کا تاج زریں ہے۔ تہذیبی کشمکش کے اس دور میں مسلمان عورت پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ دنیا میں حجاب کا کلچر عام ہو رہا ہے۔ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی تہذیب کو مغرب کے حوالے کرنا ہے یا اسوہ رسولؐ کو اپنانا ہے۔مسلمان عورت کی آئیڈیل حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ جیسی شخصیات ہیں۔ مغرب نے عورت کو کھلونا بنایا، اسلام  نے عورت کو بلند مرتبہ پر فائزکیا۔ نظریہ پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں، ہمارا فیملی نظام دشمنوں کے نشانے پر ہے، پاکستانی عورت آگے بڑھے۔ یہ خواتین ہی تھیں جنھوں نے کشمیر اور فلسطین کے بچوں کو آزادی کا سبق پڑھایا اور انھیں ظلم کے آگے ڈٹ جانے کی تربیت دی۔ افغان ماؤں نے حریت کی گھٹی افغانیوں کے گلے میں اتاری۔ وزیراعظم ناکامی اور ناامیدی کی باتیں کر رہے ہیں، وہ مان گئے کہ تبدیلی لانا ان کے بس میں نہیں، انھوں نے ریاست مدینہ کے نام پر قوم سے دھوکا کیا۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے ملک میں حیا کے کلچر کو عام کریں۔ ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اقتدار دیا تو ملک کو قرآ ن و سنت کا گہوارہ بنائیں گے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے عالمی یوم حجاب کے سلسلے میں لاہور کے پی سی ہوٹل میں منعقدہ ”تہذیب ہے حجاب“ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کا اہتمام جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی جانب سے کیا گیا تھا۔ مقررین اور اہم شرکا میں صدر انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری جنرل دردانہ صدیقی، ڈاکٹر رخسانہ جبیں،صدر وسطی پنجاب ربیعہ طارق، ڈپٹی سیکرٹریز ڈاکٹرحمیرا طارق، ثمینہ سعید،، صدر لاہور ڈاکٹر زبیدہ جبیں، ڈائریکٹر فلاح خاندان عافیہ سرور، ڈاکٹر ممتاز، ڈاکٹر آ سیہ شبیر منصوری، ڈاکٹر ثمینہ کھوکھر،مسز نور العین خان،سعدیہ فاروق،ایم پی اے سیدہ زہرہ نقوی، ایم پی اے فرحت فاروق اورصدف علی شامل تھیں۔ عالمی یوم حجاب کے موقع پر ام کلثوم بیگم ،قاضی حسین احمد، حمیرا احتشام، ثریا اسما، زہرا وحید، فہمیدہ گل، گلفرین نواز، عافیہ سرور،اسماء فیض،عظمی عمران، زرافشاں فرحین، ڈاکٹر عائشہ،مہتاب سراج الحق،ڈاکٹر نصرت طارق، زنیرہ ظفر، مہ جبیں، روبا عروج،دیبا مرزاکو ایوارڈز دئیے گئے۔ 

جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ امیر جماعت نے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کو کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد دی۔ 

سراج الحق نے کہا کہ جو لوگ عورت سے محبت کے دعوے کرتے ہیں اور ان کی آزادی کے نام نہاد دعوے دار بنے بیٹھے ہیں وہ جھوٹ اور مکر و فریب سے کام لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق سب سے زیادہ پیاری ہے اور اللہ ہی نے اپنی مخلوق کے لیے زندگی گزارنے کا تصور دیا ہے۔ پردہ اس لیے ہے کہ یہ اسلام کا حکم ہے، حجاب دنیا میں شرافت کی علامت ہے۔ پردہ کبھی بھی دنیا کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنا۔ ہم نے ان خواتین کو بھی دیکھا ہے جو اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں، مگر حجاب کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے کچھ ممالک میں اسلامو فوبیا بڑھ رہا ہے اور وہاں مسلمان عورت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہماری خواتین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کا دلیل کی قوت سے مقابلہ کریں۔دین اسلام ایک مکمل تحریک کا نام ہے جس میں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے انقلابی کردار ادا کیا۔ پاکستانی خواتین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کی تربیت کریں اورانھیں اسلام کی زریں تاریخ سے روشناس کرائیں۔

اس موقع پر منظور کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حجاب کا تصور ایک پوری تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلام کے احکام حجاب کی مخاطب صرف عورت نہیں،معاشرے کا ہر فرد ہے۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ہمارے دین نے عفت و عصمت کا ایک ایساخوبصورت نظام دیا ہے جس کے تحت دونوں اصناف کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے ا ور معاملہ کرنے کی تہذیب سکھائی گئی ہے، دونوں اصناف کی حدود مقرر کی گئی ہیں، مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے کچھ ا صول و ضوابط کا پابند کیا گیا ہے تاکہ کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے۔ یہ نظام ایک مہذب سوسائٹی کو تشکیل دیتا ہے جہاں مرد ا ور خواتین با ہم مد مقابل نہیں بلکہ مل کر معاشرے کی تعمیر کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔اگر دونوں اصناف کو ایک دوسرے سے معاملہ کرنے کی تہذیب نہ سکھائی جائے تو معاشرے میں فساد برپا ہوتا ہے۔ اس فساد کا زیادہ نقصان عورت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہم یہی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ مغرب میں بہت سے قوانین کے باوجود عورت محفوظ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مسلمانوں کا معاشرہ ہے اس کے باوجود عورت غلط رویوں کا شکار ہورہی ہے۔یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے دین کے اصولوں کے تحت صنفی معاملات کی تہذیب نہیں کی۔اسلام کے دیے ہوئے ضابطے عورت کی حفاظت کی واحد ضمانت ہیں۔ یہ نہ صرف عورت کے دکھوں کا ازالہ کرسکتے ہیں، بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح کا باعث بن سکتے ہیں۔ہمارا یہ بھی پیغام ہے کہ والدین اور ادارے اپنی ذمہ دا ریاں سمجھیں۔ گھروں اور اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو اسلام کے ان اصولوں کی بچپن ہی سے تعلیم دی جائے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ مخالف صنف کے معاملے میں ان کو کیا تہذیب سکھائی گئی ہے۔لڑکوں کو خواتین کا احترام کرنا سکھایا جائے،یہ بتایاجائے کہ اپنی جسمانی طاقت کے بل پہ عورت کو کمزور سمجھنے کا رویہ بزدلی کی انتہا ہے اور شرف انسانیت کی پامالی ہے۔جبکہ لڑکیوں کو یہ سکھایا جائے کہ وہ خود کو احترام کے قابل بنائیں،دوسروں کو غلط رویوں کی اجازت نہ دیں،اور اپنے طور اطوار اور لباس سے وقار کا مظاہرہ کریں۔ دونوں اصناف کواپنی حدود معلوم ہونی چاہئیں۔ معاشرے میں عورت کے خلاف ہرا سمنٹ اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا ر ہا ہے، محرم رشتوں کی پامالی کی خبریں بھی آ رہی ہیں، خاندا ن کا ادارہ شکست و ریخت کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ معاشرے میں حیا اور حجابی رویوں سے اجتناب اور تقویٰ سے دوری ہے۔مادیت پرستی اور دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو کر ہم نسلوں کی تربیت سے غافل ہو گئے ہیں۔یہ اس بات کی نشان دہی بھی کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں صنفی رویوں میں تہذیب کی بہت کمی ہے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اللہ کے دیے ہوئے نظام عفت و عصمت کی طرف واپس پلٹیں کیونکہ اسلامی تہذیب ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ ایک عورت صنعا سے حضر موت تک تنہا سفر کرے گی ا ور اسے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ ہمارا مطا لبہ ہے کہ نصاب ِتعلیم اور میڈیا کے ذریعے دونوں اصناف کے لیے اسلام کے دیے ہوئے اصول و ضوابط کا شعور معاشرے میں عام کیا جائے۔اس کے ساتھ خواتین سے بدسلوکی کو روکنے کے لیے موجود قوانین کا شعور عام کیاجائے ا ور آئین کے مطابق مزید قانون سازی بھی کی جائے، خصوصاً خواتین کی حرمت پامال کرنے والے سائبر کرائمز میں فوری انصاف کا حصول آسان بنایا جائے کیونکہ ایک عورت کے لیے اس کی حرمت پر آنچ آنے کا معاملہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔