امن کے لیے افغانستان سے مذاکرات ہونے چاہییں، حکومت یہ کام نہیں کر سکتی تو ہم خیال لوگوں سے مدد لے، جماعت اسلامی امن کی خاطر اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کرتی ہے.حافظ نعیم الرحمن
14دن پہلے
لاہو ر25ستمبر 2024ء
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ امن کے لیے افغانستان سے مذاکرات ہونے چاہییں، حکومت یہ کام نہیں کر سکتی تو ہم خیال لوگوں سے مدد لے، جماعت اسلامی امن کی خاطر اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کرتی ہے، طالبان ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، دہشت گردوں کو مواقع فراہم کیے جائیں گے تو پورا خطہ بدامنی کی لپیٹ میں آئے گا۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے، فوج پولیس کا کام کرے گی تو حالات بہتر نہیں ہوں گے، آپریشن مسائل کا حل نہیں، نئے آپریشن کا مطلب ہے کہ ماضی میں کیے گئے آپریشنز ناکام ہو گئے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اسلام آباد اور لاہور پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے صوبہ کے عوام کی خدمت کریں، یہ ان کی پارٹی کے بھلے میں ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پشاور میں قبائلی امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر امیر صوبہ پروفیسر محمد ابراہیم، سیکرٹری جنرل کے پی عبدالواسع، نائب امیر کے پی وزیر عنایت اللہ خان اور چیئرمین تحریک حقوق قبائل شاہ فیصل آفریدی بھی موجود تھے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ضم شدہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ایمرجنسی بنیادوں پر ترقیاتی کام کیے جائیں، بلوچستان میں لاپتا افراد کا بڑا مسئلہ حل طلب ہے، حکومت مجرم کو سزا دے، لوگوں کو ماورائے عدالت لاپتا کرنا کسی صورت درست نہیں، طاقت سے رٹ قائم نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ قبائلی علاقے میں ایک میڈیکل کالج اور یونیورسٹی نہیں ہے، بچیوں کی تعلیم سے متعلق پروپیگنڈا کرنے والے بتائیں کہ علاقہ میں بچیوں کی تعلیم کے لیے کتنے تعلیمی ادارے موجود ہیں، قبائلی علاقوں میں خواتین میڈیکل یونیورسٹی بنائی جائے، انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے اور نوجوانوں کو روزگار ملے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہوا، حکومتی سطح پر جرگوں کا انعقاد کر کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کا سبب ماضی کے ڈکٹیٹر کا امریکی فون کال پر ڈھیر ہونا تھا، اس سے قبل علاقہ میں امن تھا، امریکی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے والے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں، اس جنگ کے نتیجے میں گزشتہ دو دہائیوں میں ایک لاکھ پاکستانی شہید ہو گئے۔
امیر جماعت نے کہا کہ افغان طالبان کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا، چند لوگوں کے غلط فیصلوں کے نتائج پوری پاکستانی قوم پر نہ تھوپے جائیں، افغان سرزمین کسی صورت بھی پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے، پاکستانیوں نے برسہابرس افغان بھائیوں کی میزبانی کی، دونوں ممالک کے عوام آپسی لڑائی کے کسی صورت بھی متحمل نہیں ہو سکتے، دہشت گردی سے بیرونی دشمنوں کو مداخلت کے مواقع ملتے ہیں، پاکستان کی سرزمین پہلے ہی امریکی، بھارتی ایجنسیوں کا اکھاڑا بن چکی ہے، ممکن نہیں کہ اسرائیلی ایجنسی بھی یہاں تخریب کاری نہ کر رہی ہو۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کسی صورت بھی فوج اور عوام میں تصادم نہیں چاہتی، بہتری اسی میں ہے کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں، امن کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز میں بات چیت ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں صدر آصف زرداری نے فوج کو اندرون ملک امن کے لیے بلانے کے قانون پر دستخط کیے، بعد میں پی ٹی آئی کے دور میں اسی بل پر سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کیے اور سندھ اسمبلی نے بھی یہی کام کیا، سیاست دان فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے خود ذمہ دار ہیں، اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ کرپشن فری پاکستان کے لیے فوج سمیت تمام اداروں میں کرپشن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کے خلاف اگر کرپشن کے چارجز ہیں تو کارروائی کی حمایت کرتے ہیں تاہم صرف فیض حمید کے خلاف کارروائی کرنے کا مطلب سیاسی تصور کیا جائے گا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک میں امن کے قیام، ترقی، خوشحالی اور عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، بڑے قومی ایجنڈے کے ساتھ ”حق دو تحریک“ کا آغاز کیا، حکومت نے راولپنڈی معاہدہ پر عمل درآمد نہیں کیا، جماعت اسلامی اس کے خلاف 29ستمبر کو ملک کی بڑی شاہراہوں پر دھرنے دے گی، بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ پر ریفرنڈم کرایا جائے گا، پہیہ جام ہڑتال اور لانگ مارچ کے آپشنز بھی زیر غور ہیں۔ انھوں نے خیبرپختونخواہ کی عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جماعت اسلامی کے ممبر بنیں اور جدوجہد کا آغاز کریں۔