News Detail Banner

آئین میں درج تمام اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جائیں، حافظ نعیم الرحمن

2گھنٹے پہلے

آئین میں درج تمام اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جائیں، حافظ نعیم الرحمن
افسر شاہی منتخب نمائندوں کے ماتحت ہو، پندرہ جنوری کو بااختیار بلدیاتی نظام کے حق میں ریفرنڈم ہوگا،
ملک میں جمہوریت کی ’’جیم‘‘ تک کا وجود نہیں، طلبہ یونین پر پابندی، سیاسی پارٹیوں پر خاندانوں کی اجارہ داری ہے، امیرجماعت اسلامی پاکستان

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے پنجاب کے بلدیاتی قانون کو غیر جمہوری اور ظالمانہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آئین کی دفعہ 140اے میں درج تمام اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کرکے بروقت بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ افسر شاہی منتخب نمائندوں کے ماتحت ہو۔ صوبائی اتھارٹیز قائم کرکے اختیارات پر قبضہ اور خاندانی نظام قبول نہیں کریں گے۔ 15جنوری کو با اختیار بلدیاتی نظام کے حق میں عوامی ریفرنڈم ہوگا۔
منصورہ میں جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی تصنیف ’’سید مودودی اور ان کے سیاسی افکار عصری افکار کے تناطر میں‘‘ کی تقریب پذیرائی سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے اس عہد کا اعادہ کیا کہ جماعت اسلامی نظام کی تبدیلی اور اقامت دین کی جدوجہد صبر اور استقامت سے جاری رکھے گی، ہم ایسا صبر کریں گے جو جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کیا۔
تقریب سے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ، مرکزی رہنما مسلم لیگ (ن) سعد رفیق، سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی ، پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ سید جواد نقوی ، کالم نگار ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے بھی خطاب کیا۔ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم ، امیر لاہور ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ، مرکزی رہنما حافظ ادریس اور سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان شکیل ترابی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان وقاص انجم جعفری نے نظامت کی۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کی ’’جیم‘‘ تک کا وجود بھی نہیں ہے، جمہوریت کا راگ الاپنے والے بڑے بڑے سیاسی رہنما فارم سنتالیس کی مدد سے اسمبلیوں میں پہنچ گئے، سیاسی پارٹیاں خاندانوں اور وراثت پر چل رہی ہیں، طلبا تنظیم پر پابندی ہے اور بااختیار بلدیاتی ادارے موجود نہیں۔ پنجاب اور سندھ غیر جمہوری رویوں اور جمہوریت پرشب خون مارنے میں مدمقابل ہیں۔ سندھ میں بلدیاتی نظام کو روندا گیا تو پنجاب دوہاتھ آگے نکل گیا۔ صوبہ میں متعارف کرائے گئے نئے بلدیاتی قانون میں غیر جماعتی انتخابات کی بات کی گئی ہے، سیاسی پارٹیاں اس سے بھی خوفزدہ ہیں کہ ان کا کوئی کارکن نیچے سے منتخب نہ ہوجائے، سالوں تک سیاسی پارٹیوں میں کام کرنے والے کارکنان کو آگے آنے کا موقع نہیں ملتا، خاندان پارٹیوں کو چلا رہے ہیں، پیپلز پارٹی چالیس خاندانوں اور چار وڈیروں پر مشتمل ہے، ن لیگ کا بھی یہی حال ہے ، یہ دونوں مقتدرہ کی حمایت سے اقتدار میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں گورننس کا برا حال ہے، کارکردگی صرف اشتہاروں میں ہے، صحت اور تعلیم کے شعبہ جات تباہ حال ہیں۔ امیر جماعت اسلامی نے سوال کیا کہ چالیس چالیس سال سے اقتدار میں رہنے والے بتائیں پونے تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر کیوں ہیں؟ پڑھا لکھا پنجاب کا نعرہ لگانے والوںکو صوبہ میں سکولوں سے باہر ایک کروڑ بچے نظر کیوں نہیں آتے؟
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جماعت اسلامی پرامن جمہوری اور سیاسی مزاحمت کررہی ہے۔ ہم ہر میدان میں کھڑے رہےں گے، انتخاب میں حصہ بھی لیں گے اور انتخابی نظام کی اصلاح کے لیے کاوشیں بھی جاری رکھیں گے۔ انہوں نے سید مودودیؒ کے افکار اور جدوجہد کو موجودہ سیاسی افکار کی روشنی میں مرتب کرنے پر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی تصنیف کی تحسین کی اور کتاب کو انتہائی اہم قرار دیا۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر فرید پراچہ بہترین مدرس ، خطیب اور مصنف ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے قائدین کی متفقہ رائے ہے کہ سید مودودی کی فکر ہی واحد راستہ ہے جسے اپنا کر اسلامی انقلاب کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا سید مودودی نے فرقہ واریت سے پاک دین کی فکر کو عام کیا اور اسلام کے سیاسی نظام کا مفصل احاطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو ظلم ہم نے اپنی ریاست سے کیا ہے نہیں لگتا کہ پاکستان کے پاس مزید چار پانچ دہائیاں ہیں۔ سعد رفیق نے کہا کہ متناسب نمائندگی پر بڑی شدومد سے بحث ہونی چاہیے، پاکستان میں جمہوریت کے لیے متناسب نمائندگی کا نظام بہتر رہے گا۔
سید جواد نقوی نے کہا کہ سید مودودی نے روایتی تفسیر اسلام میں سیاسی اجتہاد کیا۔ انہوں نے قرآن کریم کی اصطلاحات کو منشور بنایا۔ بنیاد فراہم کرنے کے بعد انہوں جماعت اسلامی کی شکل میں عمارت قائم کی۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ڈاکٹر فرید پراچہ کی کتاب میں جماعت اسلامی کی تاریخ ہے۔ جماعت اسلامی جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی سیاسی تحریک ہے۔ یہ واحد جماعت ہے جو موروثیت کے اثرات سے پاک ہے۔ سید مودودی خفیہ سرگرمیوں کے مخالف اور جمہوری طریقہ کار اور مکالمہ کے حامی تھے۔ سیاست کو تحمل ، مکالمہ اور برداشت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے کہا کہ سید مودودی کے افکار پر روشنی ڈالی اور جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی تحسین کی۔